سورۃ الزمر کی آیت 29 ایک نہایت بامعنی اور طاقتور تمثیلی آیت ہے، جسے جدید زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لاگو کیا جا سکتا ہے، بشمول 2025 اور اس کے بعد کے ادوار۔ آئیے ہم اس آیت کا تفصیلی تجزیہ اور تشریح کرتے ہیں، اس کے کلاسیکی مفہوم سے لے کر موجودہ انسانی طرزِ زندگی تک
آیت کا خلاصہ:
"اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے: ایک شخص جو کئی جھگڑالو مالکوں کا غلام ہے، اور دوسرا جو صرف ایک مالک کا غلام ہے—کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔"
کلاسیکی تفسیر (علماء کی تشریح):
1. دو غلاموں کی مثال:
-
پہلا غلام کئی مالکوں کا ہے، جو آپس میں جھگڑتے ہیں اور مختلف ہدایات دیتے ہیں، جس سے غلام الجھن، تھکن، دباؤ اور بے سکونی کا شکار ہوتا ہے۔
-
دوسرا غلام صرف ایک مالک کا ہے، جس سے اسے وضاحت، یکسوئی اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
2. تمثیل کی اصل:
یہ تمثیل توحید (اللہ کی یکتائی) اور شرک (اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے) کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔
مشرک اُس غلام کی مانند ہے جو کئی جھوٹے خداؤں، خواہشات اور نظاموں کے بیچ الجھا ہوا ہو۔
جبکہ موحد صرف ایک اللہ کا بندہ ہوتا ہے، جسے روحانی سکون اور سمت حاصل ہوتی ہے۔
جدید زندگی میں اطلاق (مثلاً 2025):
یہ آیت آج کے انسان کی طرزِ زندگی پر نہایت موزوں طریقے سے لاگو ہوتی ہے۔ چند پہلو ملاحظہ فرمائیں:
1. نماز پر باس کی اطاعت کو ترجیح دینا:
جب کوئی انسان نماز یا دینی فرائض پر اپنے آجر یا کمپنی کی توقعات کو ترجیح دیتا ہے، تو وہ کئی مالکوں کا غلام بن جاتا ہے۔
اس آیت سے سیکھنے کو ملتا ہے کہ حقیقی سکون تب ملتا ہے جب سب سے پہلے اللہ کی اطاعت کی جائے، باقی معاملات خود بخود درست ہو جاتے ہیں۔
2. شہوت اور خواہشات کی پیروی:
آج کی دنیا میں لوگ لذت، شہرت، مال، اور خود پسندی کی خواہشات میں مبتلا ہیں۔
یہ خواہشات اندرونی “خدا” بن جاتی ہیں، جو ہر وقت انسان کو مختلف سمتوں میں کھینچتی ہیں۔
اللہ کی مکمل اطاعت کرنے والا شخص پُر سکون ہوتا ہے، جبکہ خواہشات کا غلام ہمیشہ ذہنی اور روحانی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔
3. سوشل میڈیا، کام، دولت اور طرزِ زندگی:
آج انسان کئی “مالکوں” کی خدمت کر رہا ہے:
- سوشل میڈیا کے لائکس،
- کیریئر کی دوڑ،
- مالی مقاصد،
- معاشرتی رجحانات،
- عوامی رائے۔
یہ سب ایک دوسرے سے متصادم ہیں، جو انسان کو دباؤ، الجھن اور شناخت کے بحران میں مبتلا کرتے ہیں۔
اسلام سکھاتا ہے کہ ان سب کو اللہ کی اطاعت کے تحت رکھا جائے تاکہ یہ وسائل بنیں، آقا نہیں۔
4. ذہنی سکون اور روحانی اطمینان:
ایک شخص جس کے اہداف بکھرے ہوں—شہرت، مال، پسندیدگی، عیش—وہ جھگڑالو مالکوں والے غلام کی مانند ہے۔
جبکہ وہ شخص جس کا مقصد خالص اللہ کی رضا ہو، اُسے یکسوئی، توازن اور حوصلہ حاصل ہوتا ہے۔
5. وقت کا استعمال اور مقصدِ زندگی:
آج کے مصروف دور میں انسان کشمکش میں ہے: جم جائے، محنت کرے، نیٹ فلیکس دیکھے، یا دین پڑھے؟
یہ آیت سکھاتی ہے کہ اگر اللہ زندگی کا مرکز ہو، تو باقی تمام امور نظم و ضبط کے ساتھ انجام پائیں گے، اور اندرونی خلفشار ختم ہو جائے گا۔
نتیجہ:
یہ آیت صرف بتوں کی پوجا سے متعلق نہیں بلکہ ہر دور کے ہر انسان کی حقیقت کو بیان کرتی ہے:
- کیا آپ کئی متضاد اثرات کے تابع زندگی گزار رہے ہیں، یا ایک واضح مقصد کے تحت؟
- کیا آپ کے روزمرہ کے اعمال ایک بلند مقصد (اللہ کی اطاعت) کے تحت ہیں، یا منتشر مطالبات اور خواہشات کے؟
"الحمد للہ" کہہ کر قرآن واضح کرتا ہے کہ حق کا راستہ صاف، عقلی اور خوبصورت ہے—لیکن اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔
اگر آپ چاہیں تو اس تضاد کو واضح کرنے کے لیے ایک جدید بصری خاکہ یا فلوچارٹ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔